28 مئی 1998: جب چاغی کے پہاڑوں میں ہوئے دھماکوں سے دنیا لرز اُٹھی
وہ دوپہر، وہ لمحہ، جب بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں نے دھرتی کا سینہ چیرتی ایک ایسی دھاڑ سنی جس نے نہ صرف بھارت کی نیندیں اڑا دیں بلکہ اقوامِ عالم کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا۔ 28 مئی 1998 کا دن تھا، جب چاغی کے راس کوہ پر گہرے سکوت کو ایک زوردار دھماکے نے چیر ڈالا۔ پاکستان نے 6 ایٹمی دھماکوں کے ذریعے وہ پیغام دیا جو توپ و تفنگ سے بھی نہ دیا جا سکا ”نعرۂ تکبیر! اللہ اکبر!“ فضا نعروں سے گونج اُٹھی۔یہ یومِ تکبیر محض ایک تاریخ نہیں، بلکہ ایک تسلسل ہے جس کا آغاز شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عزمِ فولادی سے ہوا، جنہوں نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھ کر دشمنوں کو خبردار کر دیا تھا کہ ”ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے!“۔ ان کا خواب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی محنت و قابلیت نے حقیقت کا روپ دھارا، اور پھر نوازشریف کی قیادت میں اس خواب کو دھماکوں کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔
میجر جنرل (ر) لیاقت علی بتاتے ہیں کہ 11 مئی 1998 کو بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں نے خطے کا توازن بگاڑ دیا تھا۔ اُس کے جواب میں محض 17 دن بعد پاکستان نے 6 دھماکے کر کے طاقت کا نیا باب رقم کر دیا۔ ’یہ صرف ردعمل نہیں، اعلان تھا ہم تیار ہیں، ہم متحد ہیں، اور ہم ناقابلِ تسخیر ہیں ,چاغی کے پہاڑوں کی رنگ بدلتی چٹانیں، آسمان کی جانب اٹھتی گرد و غبار کی چادر، اور گونجتی ہوئی ”اللہ اکبر“ کی صدائیں، آج بھی اس لمحے کی یاد دلاتی ہیں جب پاکستان نے نہ صرف اپنی سرزمین کا دفاع یقینی بنایا بلکہ پوری مسلم دنیا کا فخر بن گیا۔اس دن بھارت کو سانپ سونگھ گیا، دشمن کے تجزیہ کار سناٹے میں آگئے، اور عالمی طاقتیں اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہو گئیں۔ امریکہ سے لے کر اسرائیل تک، سب نے ایک نئی حقیقت کو تسلیم کیا: پاکستان اب جوہری طاقت ہے
آج 27 سال بعد، یومِ تکبیر صرف ماضی کی یاد نہیں بلکہ مستقبل کی ضمانت ہے۔ یہ پیغام ہے ہر دشمن کے لیے کہ پاکستان کے دفاع کی دیوار فولاد سے بھی مضبوط ہے۔ آج جب وطن کے رکھوالے نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہیں، تو چاغی کے پہاڑوں کی گونج میں ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے:
”پاکستان زندہ باد! پاکستان ناقابلِ تسخیر!“
Leave A Comment