تازہ ترین

میانمار کے وسطی علاقے ساگائنگ میں واقع ایک بدھ خانقاہ پر جمعے کی شب ہونے والے فضائی حملے میں کم از کم 23 افراد جاں بحق ہو گئے، جن میں چار بچے بھی شامل ہیں۔ خانقاہ میں حالیہ جھڑپوں سے بچنے کے لیے قریبی دیہاتوں کے ڈیڑھ سو سے زائد افراد نے پناہ لے رکھی تھی۔مقامی مزاحمتی تنظیم کے رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ساگائنگ ٹاؤن شپ کے گاؤں ”لن تا لو“ کی خانقاہ میں رات ایک بجے کے قریب لڑاکا طیارے نے بم گرایا، جس سے 23 افراد موقع پر جاں بحق ہو گئے، جبکہ 30 کے قریب افراد زخمی بھی ہوئے، جن میں سے 10 کی حالت نازک بتائی گئی ہے۔

 ہلاکتوں کی تعداد 30 تک ہو سکتی ہے، تاہم اس دعوے کی فوری تصدیق نہیں ہو سکی۔ میانمار کی فوج نے حملے پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا۔ فوج کا مؤقف رہا ہے کہ وہ صرف ”جنگی اہداف“ کو نشانہ بناتی ہے اور مزاحمتی گروہوں کو ”دہشت گرد“ قرار دیتی ہے۔یہ خانقاہ ملک کے دوسرے بڑے شہر منڈالے سے 35 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے اور گزشتہ کئی ہفتوں سے وہاں لڑائی کے باعث ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔میانمار میں 2021 میں آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے فوجی حکمرانی کے خلاف خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ ابتدائی پُرامن مظاہروں کو ریاستی طاقت سے کچلا گیا، جس کے بعد عوامی دفاعی فورسز (People’s Defense Forces) نے مسلح مزاحمت شروع کی۔

ساگائنگ وہ خطہ ہے جہاں مزاحمت سب سے زیادہ منظم ہے، تاہم ان کے پاس فضائی حملوں کا کوئی مؤثر جواب موجود نہیں۔ حالیہ ہفتوں میں فوج نے اسی علاقے میں ٹینکوں اور طیاروں کے ذریعے مزاحمتی علاقوں پر بڑا حملہ کیا تھا، جس کے بعد ہزاروں افراد بشمول خواتین و بچوں نے دیگر علاقوں کی طرف ہجرت کی۔مزاحمتی اتحاد نیشنل یونٹی گورنمنٹ کے ترجمان نائ فون لاٹ نے کہا ہے کہ فوج یہ حملے آئندہ مجوزہ عام انتخابات سے قبل مزاحمتی علاقوں پر قبضے کے لیے کر رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ انتخابات فوجی قبضے کو قانونی جواز دینے کی کوشش کا حصہ ہیں تاکہ اقتدار ایک بار پھر اسی طبقے کے پاس رہے۔

مذکورہ خانقاہ پر حملے نے نہ صرف میانمار بلکہ عالمی سطح پر بھی انسانی حقوق کے اداروں کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، جہاں پناہ گزینوں پر براہِ راست حملہ، بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔

 

Leave A Comment

Advertisement